The News Time: انتخاب
Showing posts with label انتخاب. Show all posts
Showing posts with label انتخاب. Show all posts

Tuesday, 22 November 2011

بھارت،مسافرٹرین میں آگ لگنےسے7ہلاک


جھاڑ کنڈ:  بھارت کی ریاست جھاڑکنڈ میں مسافر ٹرین کی 2 بوگیوں میں آگ لگنے  کے نتیجے میں 2 بچوں سمیت 7 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہاؤڑا سے دہرہ دون جانے والی ایک مسافر ٹرین کی 2 بوگیوں میں گیس سلینڈر پھٹنے سے آگ لگ گئی۔
پولیس ذرائع  نے مزید بتایا کہ واقعے میں 2 درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے جن کی حالت انتہائی نازک بتائی جاتی ہے جن کو اسپتال داخل کروادیا گیا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ آگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ  آگ کے شعلوں کو دور تک دیکھا جا سکتا ہے۔
 ٹرین میں موجود کچھ افراد کا کہنا تھا کہ انہیں واقعے کا علم اس وقت ہوا جب انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آنے لگی جس کی اطلاع انہوں نے ٹی ٹی کو دی لیکن وقت کوئی اقدام نا کرنے کے باعث حادثے کی نوعیت سنگین ہوگئی۔

Monday, 21 November 2011

Pakistani family stand trial for ‘honour killing’ in Belgium


MONS - Belgium's first "honour killing" trial opened on a note of high drama when a young Pakistani man suddenly confessed to the murder of one sister and the attempted murder of another.
Mudusar Sheikh, 27, is standing trial along with his parents and younger sister for the murder of his sister, Sadia Sheikh.
Sadia, a law student, who defied the family by living with a Belgian and refusing an arranged marriage, was shot dead by three bullets allegedly fired by Mudusar on October 22, 2007.
Her parents and sister are accused of aiding and abetting the killing which took place when the student visited her family in the hopes of patching up their quarrel.
Mudusar has admitted to killing his sister while saying the rest of the family were not to blame.
Questioned by the presiding judge at the jury trial, he surprised his own lawyer by suddenly confessing to the attempted murder of his second sister, Sariya, now 22 and on trial herself in the case.
"I am confronted by two acts, one that succeeded -- that eradicated a person, Sadia -- and one that failed, on my sister Sariya," who was wounded by a bullet to the arm in the 2007 shooting.
"I want to tell my family this," he went on. "I wanted to kill Sariya. I don't dare look you in the eye."
"I left you for dead," he added to his sister beside him in the dock as his parents broke into tears.
The accused said he would have "a lot of things to explain" during the high-profile trial, expected to last three to four weeks.
The family of four face sentences of life imprisonment if found guilty by a jury of five women and seven men at a trial also involving rights groups pleading for gender equality as part of a civil suit at the hearings.
Sadia Sheikh left the family home to study after her shopkeeper parents tried to arrange a marriage with a cousin living in Pakistan.
She had agreed to visit the family in hopes of making peace the day she was shot.
Her father Tarik Mahmood Sheikh, 61, mother Zahida Parveen Sariya, 59, and sister Sariya, also facing charges of "attempting to arrange a marriage," have denied involvement in the murder, saying Mudusar killed his sister in a fit of rage.

Tuesday, 15 November 2011

colum



Monday, 14 November 2011

’چین میں شادی مسئلہ بن گئی‘

بیجنگ: چین میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ شادی کے لیے موزوں جوڑوں کی تلاش بھی ایک مسئلہ بن گئی ہے جس کے بعد اب حکومت نے اس معاملے میں مداخلت کا فیصلہ کیا ہے۔
چین میں شادی کے لیے لڑکیاں زیادہ اور لڑکے کم پڑگئے ہیں جب کہ روزانہ ہزاروں طلاقیں بھی ایک تشویش ناک مسئلہ بن گئی ہیں، حکومت نے شادی میں نوجوانوں اور والدین کو معاونت فراہم کرنے کے لیے خود آگے آنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ضمن میں شنگھائی میں حکومت کی طرف سے ایک تقریب منعقد کی گئی، جس میں 10 ہزار لڑکوں اور لڑکیوں کو ملاقات کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ وہ اپنی پسند کے مطابق جیون ساتھی چن سکیں، یہاں پہنچنے والوں کی عمریں 22 سے 35 سال کے درمیان تھیں۔

Saturday, 12 November 2011

گوگل کاٹوئیٹراکاﺅنٹ پر10 قیمتی فونزدینےکا اعلان


نیویارک : دنیا کے معروف ترین سرچ انجن گوگل نے اپنے ٹوئیٹر اکاﺅنٹ کے فالورز کو 10 نئے گلیکسی نیکسز موبائل فونز دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ ان افراد کے لئے سنہرا موقع ہے جو یہ قیمتی فون خریدنے کا سوچ نہیں سکتے۔
10 روزہ مقابلے کے دوران گوگل کے ٹوئیٹر اکاﺅنٹ مٰں مختلف آسان سوالات مخصوص اوقات میں پوچھے جائیں گے جس کا جواب دینے کے بعد خوش قسمت افراد کا انتخاب گوگل کا پینیل کرے گا۔
اس مقابلے میں دنیا کے بیشتر ممالک کے افراد حصہ لے سکتے ہیں اور اس کے لئے کوئی شرط بھی نہیں بس جواب انگریزی مین ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
گوگل کے مطابق جواب ٹوئیٹر کی طے کردہ حد 140 الفاظ پر مشتمل ہونا چاہئے۔ اگر آپ بھی اس میں حصہ لینا چاہئے تو ٹوئیٹر اکاﺅنٹ @googlenexus پر جاکر مزید تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔

Thursday, 3 November 2011

’سندھ میں ایشیاء کی جدید لائبریری‘


خا—-موووو—–ششش، ، جیسے ہی ہال میں کھسر پھسر ہونے لگی یہ دھیمی مگررعب دار آواز گونجی جس کے بعد ایک بار پھرپن ڈراپ سائلنس ہو گیا اورسب اپنے اپنے کام میں دوبارہ ہوگئے۔ یہ منظر کسی کلاس روم کا نہیں بلکہ یہ مہران یونیورسٹی کی مرکزی  لائبریری کاتھا جہاں ذرا سی آواز بھی  لائبریرین پر بہت گراں گزرتی جس کاا اندازہ اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا۔
 لائبریرین ایسی ہی شخصیت کے مالک ہواکرتے ہیں اور لائبریری میں نظم وضبط کو برقرار رکھنا بھی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔  لائبریری میں داخل ہونے کے لئے ہمیں یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر کی سفارش کا استعمال کرنا پڑاکیوں کہ یہاں کسی بھی فردکو  لائبریری کارڈ کے بغیر داخل نہیں ہونے دیا جاتا اور گیٹ پر طلباء کےاستقبال کے لئے دود گارڈز بھی موجود ہوتے ہیں ۔
 مرکزی  لائبریری کو مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا آن لائن انفارمیشن سینٹربھی کہا جاتا ہے۔ لائبریری میں کورس سے منسلک ایک لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں جبکہ ڈیجیٹل  لائبریری پروگرام کے تحت طلبہ کو51 ہزار  ای -جرنلز تک رسائی کا بھی انتظام ہے ۔
 لائبریری کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں عام دنوں میں روزانہ کی بنیاد پر قریبا ایک ہزار طلباء پڑھنے آتے ہیں جو یونیورسٹی میں طلباء کی کل تعداد کا قریبا15 فیصد ہیں۔
طلباء کا کہنا ہے کہ  لائبریری پڑھنے کےلئے ایک بہترین خاموش اور تعلیمی ماحول ہوتا ہے جو طلباء کو پڑھائی میں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ مہران یونیورسٹی کی  لائبریری کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، انڈر گراونڈ ، گراونڈ فلور اور فرسٹ فلور۔ انڈر گراونڈ فلور ڈیجیٹل  لائبریری پر مشتمل ہے جہاں 100 کے قریب کمپیوٹر سسٹمزمیں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہ ہے۔
 لائبریری میں داخل ہوتے ہی سیٹرھیوں سے نیچے کی جانب اترااور انڈر گراونڈ سیکشن میں داخل ہوایہاں چاروں طرف کمپیوٹر سسٹمز لگے ہوئے ہیں جن سے طلباء مستفید ہو رہے تھے جبکہ کچھ طلباء اپنی باری کے آنے کا انتظار کر رہے تھےجن کی حسرت بھری نگاہیں  لائبریرین کی جانب کچھ اس طرح دیکھ رہی تھیں گویا اس سے کسی طالب علم کو جلدی اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہوں لیکن AC کی ٹھنڈک کا مزہ تو اپنی باری کا انتظارکرتے ہوئے یہ طلباء بھی لے رہے تھے۔
یہ ڈیجیٹل  لائبریری سیکشن ہےیہاں ہر طالبعلم کو سسٹم آپریٹ کرنے اورانٹر نیٹ چلانے کے لئے رش کے اوقات میں ایک گھنٹہ جبکہ زیادہ سے زیادہ 3 گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ اس سہولت سے زیادہ تعدادمیں طلباء مستفید ہوسکیں۔طلباء کا ماننا ہے کہ ڈیجیٹل  لائبریری میں انٹرنیٹ کے استعمال اور اپنی فیلڈ سے متعلق تعلیمی موادتک رسائی ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں جس کے ذریعے انہیں اپنے اسائمنٹ بنانے میں بھی کافی مددملتی ہے۔
طلباء کے بقول یہاں پر فیس بک اور ٹوئٹر جیسی سماجی ویب سائٹ پر پابندی بھی عائد ہے تاکہ طلباءزیادہ تر وقت اور صلاحیتیں اپنی پڑھائی میں ہی صرف کرسکیں۔ انڈر گراونڈ سیکشن کے بعد گراونڈ سیکشن کا رخ کیا جہاں پر کچھ طلباء کتابوں کے اجراء میں مصروف نظر آئے ، کچھ پڑھائی میں جبکہ چند طلباء اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
 لائبریری میں 10 سے زائد بڑے اخبارات موجود ہوتے ہیں جن میں اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبارات  بھی شامل ہیں ۔ اب فرسٹ فلور کا رخ کیا یہاں بھی طلباء کی کثیر تعداداپنے کمپیوٹرائزڈ لائبریری کارڈسےاپنی اپنی فیلڈ سے متعلق کتابیں حاصل کر رہے تھے۔ ان طلباء کی مدد کے لئے اسسٹنٹ  لائبریرین عبدالوحیدصاحب ان کی رہنمائی میں میں مصروف تھےجو ان کے کارڈ کو کو وہاں موجود اسکینرکی مدد سے چیک کرتے۔
جیسے ہی اسسٹنٹ  لائبریرین طالبعلم کے  لائبریری کارڈ کو اسکینر مشین سے گزارتا طالب علم کا ریکارڈ کمپیوٹر میں آجاتا اور  لائبریرین ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد کتابوں کا اندراج کرتا اور کتابیں جاری کر دیتالیکن اگر کسی طالبعلم کے پاس پہلے سے کورس کی 5 کتابیں موجود ہوتی تو اسے مزید کتاب جاری نہیں کی جاتی کیوں کہ  لائبریری قوانین کے مطابق کوئی بھی طالبعلم کورس سے متعلق بیک وقت صرف 5 کتابیں رکھ سکتا ہے اور مزید کتابیں لینے سے قبل اسے گزشتہ کتابیں واپس کرنا لازمی ہے۔
 لائبریری میں ہر ٹیکنالوجی کی علیحدہ علیحدہ شلفیں موجود ہیں تاکہ طلباء کو اپنی فیلڈ سے متعلق کتابیں ڈھوندنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن اس کے باجود بھی اگر کسی طالبعلم کو کوئی دقت ہو تو لائبریری کے حافظ صاحب یعنی اسسٹنٹ  لائبریرین انہیں ٹھیک اس سمت جانے کا اشارہ کرتے ہیں جہاں ان کی مطلوب کتاب دستیاب ہوتی ہے، ایسا ہی ایک منظر دیکھنے کو بھی ملا۔
دی نیوز ٹرائب کو یونیورسٹی کے  لائبررین اعظم ہالیپوٹو نے بتایا کہ مہران یونیورسٹی کی لائبریری کا شمار ایشیا ء کی جدیدترین  لائبریریوں میں ہوتاہے یہاں کا تمام سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہے۔طلباء کو صرف ان کے کمپیوٹرئزڈ اکارڈ پر کتابیں جاری کی جاتی ہیں جبکہ کوئی بھی شخص کتاب کی انٹری کرائے بغیر اسے  لائبریری سے باہر نہیں لے جاسکتا کیوں کہ  لائبریری کے گیٹ پر موجودواک تھرو گیٹ پر فوراہی سائرن بجنے لگتا ہے ۔
لائبریری میں کورس کی کتاب کو 10 روپے فی سمسٹر کرایہ پر دی جاتی ہے اور اگر مقررہ وقت پر کتاب واپس نہیں کی جائے تو ایک روپے فی دن کے حساب سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ  لائبریری کا قیام 1977ء میں ہوا تھا اور 2009ء میں  لائبریری کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اسے نئی عمارت میں تبدیل کر دیا گیا کیوں کہ پرانی عمارت میں طلباء کے لئے جگہ ناکافی تھی۔
اعظم ہالیپوٹو کے مطابق مہران یونیورسٹی کی  لائبریری میں تما م ٹیکنالوجیز سے متعلق کتابیں موجود ہیں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ طلباء ریفرنس بکس سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ لائبریری صبح 8:00 بجے سے رات 9:00 بجے تک بغیر کسی وقفہ کےاتوار کے دن بھی کھلی رہتی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر1 ہزار کے قریب طلباء روزانہ وزٹ کرتے ہیں جبکہ پیپرز کے دنوں میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔
آزاد برطانوی ادارے دی نیوز ٹرائب سے بات چیت کرتے ہوئے سافٹ وئیر انجینئرنگ فرسٹ ائیر کے طالب علم فہیم نے بتایا کہ وہ روزانہ  لائبریری میں 2 گھنٹے گزارتا ہے، یہاں کورس کی تمام  کتابیں دستیاب ہیں جب کہ ڈیجیٹل  لائبریری میں مختف کیٹ لاگز ، جرنلز اور انٹرنیٹ کی سہولت سے اسے پڑھائی میں کافی مدد ملتی ہے ۔
الیکٹرانکس سیکنڈ ائیر کے طالب علم اسد کا کہنا ہے کہ  لائبریری کے اوقات کو مزید بڑھانا چاہئے تاکہ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء رات گئے تک اس سے مستفید ہوسکیں۔
فرسٹ ائیر کیمیکل انجینئرنگ کے طالب علم جئے کمار نے بتایا کہ وہ گھر کے مقابلے میں لائبریری میں پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے کیوں کہ یہاں کا ماحول بہت پرسکون ہوتا ہے۔اس کے مطابق لائبریری میں ایئرکنڈیشن بھی لگا ہوا ہے جس سے گرمی کا بھی احساس نہیں ہوتا۔
ٹیکسٹائل سیکنڈ ائیر کی طالبہ عانیکااکرم نے بتایا کہ وہ  لائبریری میں پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ یہاں پر ایک اچھا تعلیمی ماحول ہوتا ہے اور کوئی بھی ڈسٹربنس نہیں ہوتی۔عانیکا کہتی ہیں کہ لائبریری میں پڑھنے کے لئے علیحدہ اور کمبائین اسٹڈی ٹیبلزبھی موجود ہیں۔
ایک اور طالبہ زینب کا کہنا ہے کہ لائبریری کا اسٹاف بہت تعاون کرتا ہے، یہاں کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ریفرنس بکس بھی دستیاب ہیں جب کہ سازگار ماحول سےانہیں پڑھائی میں کافی مدد ملتی ہے۔ زینب نے بتایا کہ وہ اپنی دیگرکلاس فلوز کے ساتھ روزانہ  لائبریری میں پڑھنے آتی ہے اور یہاں 3 گھنٹے قیام کرتی ہیں۔
دی نیوز ٹرائب سے بات چیت کرتے ہوئے  الیکٹریکل فرسٹ ائیر کے طالب علم معصب نےبتایا کہ وہ کلاسز سے فارغ ہونے کے بعد لائبریری کا رخ کرتا ہے اور یونیورسٹی پوائنٹ کے آنے تک یہیں رہتا ہے ۔اس نے بتایا کہ وہ یہاں اخبارات کا بھی مطالعہ کرتا ہے تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملکی حالات سے بھی باخبر رہ سکے۔

Tuesday, 1 November 2011

colum

دوردیس کی پاکستانی لڑکی

وہ پاکستان سے اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑاچھے دنوں کی امیدلئے برطانیہ گئی تھی۔یہ اچھے دن اگرچہ معاشی طورپرمطلوب نہیں تھے لیکن پرسکون گھر،خوشیوں بھرے لمحات اورزندگی کامشن پوراکرنے کودستیاب گھڑیاں مل جانا بھی تو خوشی ہی کہلاتاہے۔
کہنے کوتووہ برسوں پہلے دوردیس چلی گئی لیکن ناجانے کیوں اس کادل اب بھی انہی گردآلودسڑکوں،موت کا رقص دیکھتی گلیوں،کچھ چھین لئے جانے کے خوف سے لرزاں چہروں،کچھ کردکھانے کی تڑپ سے تمتماتی جبینوں اورنوجوانوں کی انمول دولت رکھنے والے دیس کےساتھ ہی دھڑکتاہے۔
اس کاجی چاہتاہے کہ اس کے دیس پاکستان میں جو کچھ ہو وہ سب سے پہلے جان لیاکرے۔اس شوق کی وجہ سے اکثرایسابھی ہوتاہے کہ وہ پاکستان میں موجودسماجی طورپرانتہائی فعال اپنی والدہ سے جب کسی ایونٹ کاذکرکرتی اورانہیں لاعلم پاتی ہے توتفصیل بھی اسے ہی مہیاکرناپڑتی ہے۔ایسے میں یقینااس کی امی کو کہناچاہئے کہ کچھ تویہاں والوں کے لئے بھی چھوڑ دولیکن وہ شایداس لئے ایسانہیں کہتی ہوں گی وہ اپنی گودمیں پلنے والی کی صلاحیت اورجذبے دونوں ہی سے باخبرہیں۔
پاکستان کے معروف ترین میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعدزندگی کے اہم ترین موڑشادی سےگزرکروہ بھی بہت ساری دیگرپاکستانیوں کی طرح ملک سے باہرچلی گئی۔بس وہ یہ نہیں کرسکی کہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں اورحالات کوبھول سکتی اس لئے اب بھی اس کادل یہیں اٹکاہوا۔
انتہائی سمجھدار،مخلص،محبت سے گندھی،پرشفقت اورخیرخواہ شخصیت رکھنے والی وہ دھان پان سی پاکستانی لڑکی وطن عزیزکے حالات کی بہتری اوربھول جانے والے سبق کویادکرنے کے لئے اتنی بے چین ہے جتنے شاید یہاں کے رہنے والے 18کروڑنفوس بھی نہ ہوں۔اس کاماننا ہے کہ ایساوہ اکیلی ہی نہیں کرتی بلکہ بہت سے پاکستانی باہررہ کربھی گھرکے لئے سوچتے،کڑھتے ،کچھ کرتے یاچپ رہتے ہیں۔
اس سے جب بھی بات ہوئی موضوع گفتگوپاکستان،پاکستانی اورپاکستانیت ہی رہا۔ وہ صرف محب وطن نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کرہے جبھی توایک لمحے تعلیم پرپریشاں نظرآنے والی دوسرے لمحے طبی سہولیات کا ذکرکرکے افسردہ ہوتی ہے،فورا ہی سماجی روئے موضوع بنتے ہیں تواگلے سانس میں سیاست کے جھیل جھمیلے گفتگوکارخ پلٹ ڈالتے ہیں،میڈیاکی کرنیاں ،ناکرنیاں پریشان کرتی ہیں توادھرادھربکھری کامیابیوں سے حوصلہ کشیدکرلیتی ہے۔ مجال ہے کہ کبھی کوئی بات اس کی ذات سے متعلق کی گئی ہو اوروہ کچھ دیراسے موضوع بنانے پرآمادہ رہی ہو۔بسااوقات یہ ہواکہ رسم دنیانبھانے کوخیرخیریت پوچھ لی تو2سے 3روزتک جواب ہی نہیں ملا۔
اس کے اندرپکنے والے لاوے کااندازہ توتھا،کچھ پہلوئوں پربہت سردوگرم بحث بھی ہوتی لیکن وہ ہمیشہ اتنی خوبصورتی سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرکے اپنے موقف پراڑی رہتی ہے گویاوہ خودکے درست ہونے کا یقین ہی نہیں مصمم یقین رکھتی ہے۔چند روزقبل برطانیہ میں رہائش پزیرپاکستانیوں اورپاکستان کے بارے میں ان کے احساسات پربات ہوئی تووہ پھٹ ہی پڑی۔
پاکستان ٹوٹ جائے گا؟امن کب ہوگا؟بنگلہ دیش جیسے حالات بن گئے کیابلوچستان الگ ہو رہاہے؟جیسے بھاری بھرکم سوالات لئے وہ اپنے لفظوں سمیت یوں میرے سامنے آکھڑی ہوئی گویاجواب لئے بغیرٹلنے کی نہیں لیکن پھرخودہی کہنے لگی یہاں آنے والے سبھی کام کرتے رہو،پیسے کمائوعیاشی کرو،ملک کی پرواہ نہیں کی دھن میں مگن ہیں۔
اس کاکہناتھابرطانیہ میں پاکستان جیسادائیں بائیں کامسئلہ نہیں بلکہ مذہب اورلادینیت کوپسندکرنے والوں کی کشمکش ہے جس میں امتیازصرف پیدائشی برطانوی ہی کو حاصل ہے۔باقیوں کے لئے قانون اس وقت تک ہے جب تک یہاں کے کرتادھرتائوں کواس سے کوئی مسئلہ نہ ہو۔البتہ اتنی اچھائی ضرورہے کہ طرزفکرکااختلا ف لڑائی کی صورت کم ہی اختیارکرتاہے اورفساد توبنتاہی نہیں ہے۔
مگردوردیس بسنے والی وہ پاکستانی لڑکی آخر ٹھہری سداکی پاکستانی، شاید اپنے لاشعورمیں موجودحالات کی بہتری کے احساس کو دبا نہ سکنے کی وجہ سے اس کی زبان پر آہی گیا کہ برطانوی میڈیاچین ہی چین اس لئے لکھتاہے کہ ان کے پاس کوئی خبرہی نہیں یہ زبردستی کر کے خبریں پیداکرتے ہیں۔پاکستانیوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے اوروہ ایسا سمجھنے میں کچھ غلط بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں بسنے والوں سے اسے گلہ ہے اوربجا ہے کہ اپنی شناخت کی بقاء کی جنگ لڑنے والے پاکستانی نژادبرطانویوں کے برعکس پانچ دریائوں اوردوریگستانوں کی سرزمین پربسنے والے پاکستانی عیاشی کررہے ہیں یہاں رہنےوالوں کوعلم یاادراک نہیں کہ دنیاجوکچھ کررہی ہے اس میں ہمیں کیاکرناچاہئے۔
ارباب بست وکشاد سے بھی اسے گلہ ہے کہ ظلم ہو رہاہے،نفرت بوئی جا رہی ہے،تقسیم گہری کی جا رہی ہے،مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ایسے میں امریکہ،برطانیہ نا سہی مسلم ملکوں کے اسکالرز،علماء،دانشور،رہنما یہ کیوں نہیں سوچتے حل کی فکرکیوں نہیں کرتے؟عارضی اوروقتی سلوشن کوہی پسند کرتے ہیں؟
اس کایہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کے درمیان مصنوعی طورپرپیداکئے جانے والے مختلف طبقات میں جو فرق ہے وہ برطانیہ میں نہیں لیکن یہاں کے رہنے والے کم ازکم ہرچئی چیزسے ویسے متاثریامرعوب بھی نہیں ہوتے جتنی جلد پاکستان میں رہنے والے پاکستانی ہو جاتے ہیں۔اسے یہ بھی دکھ ہے کہ وہ لوگ جو حالات بدلنے کاحوصلہ،سکت اورصلاحیتیں رکھتے ہیں وہ تھکن کاشکارہیں،خودمذمتی کی وجہ سے ڈیلیورکرنے کو تیارنہیں،نفساتی تسکین کے لئے گفتگوکوہی کافی سمجھتے ہیں،سوچے سمجھے بغیرکرنااورنتیجے کے لئے کوشش ہی نہ کرنا اپنا شیوہ بنا لیاہے،سوشل میڈیااورجدید ابلاغیات کے دورمیں گزشتہ نسل کانئی نسل سے کوئی رابطہ ہی نہیں رہاہے۔
دوردیس رہنے والی اس پاکستانی لڑکی میں ایک چیزایسی ہے جو میرے نزدیک اسے ہم جیسے بہت سوں سے ممتازکرتے ہے اوروہ ہے مسئلہ پرکڑھنے اورروتے رہنے کے بجائے تبدیلی کی امید،تڑپ،جذبہ،اپنی شناخت پراصراراوران سب کے لئے کام کرنے کا حوصلہ ۔جاتے جاتے وہ اوپربیان کئے گئے شکووں کا حل بھی تجویزکرگئی کہ اگر ہم خودسے محبت کرناسیکھ جائیں توذہنی پسماندگی دورہوجائے گی اورجس دن ایساہو گیااس دن پاکستان کوبہتری،بلندی،ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا،کوئی بھی نہیں۔

Friday, 28 October 2011

Borrowing binge squeezes liquidity from money market

Borrowing
KARACHI - Excessive budgetary borrowing by cash-strapped federal and provincial governments have created what sources in central bank have confirmed a severe liquidity crunch in the local money market.

Rupee Scarcity

The scarcity of rupee in the banking system is believed to have been so compelling that the State Bank of Pakistan (SBP) has only been injecting liquidity into the money market during the whole quarter of this financial year, 2011-12. The SBP press communiqués show that between 17th July and 28th October, the central bank pumped a huge sum of over Rs3.204 trillion into the rupee-starved banking system. The SBP injected this huge amount through conducting some 25 reverse repo operations, the annual rate of return for which ranged from 11.47 to 13.24 per cent. It was some four months back, when the regulator had conducted its last mop-up operation and had mopped up the excess liquidity worth Rs34.500 billion from the money market at 12.04 per cent annual rate of return. Since then the commercial banks have constantly been short of money due to, what a central banker said, excessive government budgetary borrowings from them. “The liquidity crunch is due to the government borrowing from the commercial banks,” a central bank informed Profit.

Govt borrowing

According to the SBP data, during the first three and half months of the current fiscal year, the funds-starved government’s borrowing from the scheduled banks increased significantly by 2.757 per cent or Rs258.349 billion to Rs267.720 billion. SBP, during the same period, July-October, in FY11, had calculated the government loans from the commercial banks at Rs9.371 billion only. Whereas the government’s borrowings from the State Bank have shrunk to almost zero as it still maintains a credit balance of Rs45.751 billion in its deposits with the SBP. During this period last year, the resource-constrained government had withdrawn Rs181.899 billion from the central bank. The sources at SBP indicated that the government, by relying heavily on commercial banks for its ever-increasing budgetary expenditures, was responding positively to the constant warnings from economic observers against borrowing from State Bank that are inflationary in nature.

Borrowing shift

Though easing, inflationary pressures in the country are still haunting the poverty-stricken masses with critics asking the regulator for rational behind its recent “unexpected” 150 basis points cut in its interest rate for October-November (FY2011-12). However, when contacted the SBP chief spokesman Syed Wasimuddin said the reverse repo operations were always aimed at catering the rupee shortfall in the banking system. “The shortage is due to more withdrawals from the banks,” the spokesman replied without elaborating withdrawals by whom. Friday again saw the State Bank injecting over Rs216.60 billion into the money market at 11.47 per cent rate of return. The analysts believe that the government’s borrowing shift from the central to the commercial banks was not only depriving the growth-oriented private sector of bank finances but also making the banks’ risk averse. The State Bank statistics reveal that from 1st July up to 14th October the private sector loans from the banks remained downward as during the period under review the private borrowers’ credit balance with the banks increased to Rs81.144 billion against Rs41.824 billion of the corresponding period in FY11. The economic observers expect a significant upset in the government fiscal targets for FY12 amid depleting financing from abroad, with the International Monetary Fund (IMF) still in no mood to release the remaining $3.1 billion of its $11.3 billion Standby Agreement of 2008.

میں غلط تھا۔۔۔!


ملک کے حالات پر میں بس ایک حل سب کو تجویز کرتا تھا کہ ہمارے یہاں بھی اگر تیونس کے محمد باﺅ عزیزی کی طرح کوئی انتہائی اقدام لے تو ہمارا ملک بھی درست سمت پر چل سکتا ہے، ہمارے معاشرے میں بھی انقلاب آسکتا ہے۔ مگر میں غلط تھا میں بالکل غلط تھا۔
محمد باﺅ عزیزی گریجویٹ تھا اور جنوری 2010سے تیونس کی سڑکوں اور گلیوں میں نوکری تلا ش کرتا رہا۔مایوس ہوکر اس نے کام کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام رہا اور آخر تنگ آکر اس نے پیٹرول کی بھری ہوئی بوتل سے تیونس کی پا رلیمنٹ کے سامنے اپنے اوپر پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگالی۔ باﺅ عزیزی کی زندگی تلخیوں کی پوری کتاب تھی۔
 نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے راجہ رند خان نے بھی 24 اکتوبر کو یہی کیا ۔ وہ میٹرک پاس تھا۔ اس کی عمر بھی باﺅ عزیزی کی طرح 25سال تھی وہ دو بچوں کا باپ اور ایک حاملہ بیوی کا خاوند تھا۔ راجہ نوکری کی تلا ش میں اسلام آباد آیااور اپنے علاقے کے ایم این اے سے ملا قات کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے پا رلیمنٹ لاجز میں گھسنے کی اجازت نہ دی تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوگیا اور اس کے دھرنے پر کسی نے دھیان نہ دیا ۔ چناچہ وہ خود سوزی کرنے پر مجبور ہوگیا اور راجہ رند نے 24 اکتوبر کو خود کوپارلیمنٹ کے سامنے آگ لگالی۔راجہ رند کی خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تو تھوڑی دیر تک پورا ملک سکتے کی حالت میں رہا لیکن پھر زندگی معمول پر آگئی اور لوگوں نے راجہ کی موت کو ایک نیوز پیکج یا ایک amazing نیوز کے طور پر لیا اور یوں میں غلط ثابت ہوگیا اور راجہ کی قربانی رائیگاں چلی گئی۔ باﺅ عزیزی نے جب اپنے آپ کو آگ لگائی تو اس وقت تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کی حکومت تھی جو پورے ملک پر قابض تھے ملک کا میڈیا مکمل طور پر حکومت کا پابند تھا ہر خبر حکومت کی مر ضی سے نشر ہوتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ باﺅ عزیزی کی خود سوزی کی تصاویر یا ویڈیو کسی چینل پر نشر نہیں ہوئی بلکہ تیونس کے ایک شہری کے موبائل فون کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچی جس نے تیونس میںانقلاب کو جنم دیا جس کے زدمیں عرب کے دیگر ڈیکٹیٹرز بھی آگئے ۔
 فرانس کی فوج کے سابق جنرل اور لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہ جب میں پیداہوا تو میرا ملک مررہا تھا اور اس وقت ہمارے ملک میں بھی پیدا ہونے والے ہر بچے کی یہ ہی کیفیت ہے۔ باﺅ عزیزی کی موت تو تیونس میں انقلاب برپا کرگئی مگر افسوس راجہ رند کی خود سوزی پاکستان کو کچھ نہیںدے سکی اور پاکستان آج بھی راجہ رند کی طرح روز جی رہا ہے اور روز مررہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں انقلاب برپا کیوں نہ ہوسکا کیونکہ ہم لوگ صرف زندہ ہیں مگر ہم میں زندہ قوموں والی کوئی بات نہیں، اندر سے سب گل سڑ چکے ہیں، الزام لگاکے روز رات کو رضائی اوڑہ کے سونا اور دوسرے دن اٹھ کے دوبارہ حکومت کو برا بھلا کہناہمارا معمول بن گیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور صرف زرداری ورحمان ملک کو برا بھلا کہ کر اپنی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں ۔
یہ تو ایک معمولی راجہ رند تھا ایک وہ حبیب جالب تھے جوانقلابی نظمیں لکھتے رہے اور انقلاب کی باتیں کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے مگر اس قوم پر کو ئی فرق نہ پڑا۔ پاکستان میں پچھلے برس 1600 افراد نے ریکا رڈخود کشی کی مگر کیا ہوا؟ میں اپنی ہر تحریر میں آپ لوگوں کے لیے ایک سوال چھوڑ جاتا ہوں ۔ راجہ رند خان کی موت نے اس کی بیوی کو پولیس میں نوکری دلوادی مگر کیا راجہ رند خان کی خود سوزی نے اس ملک کوکچھ دیا ؟

ڈوبتے سندھ کےمحکمہ خوراک میں60کروڑسےزائدکی کرپشن


معاشی لحاظ سے کمزور ملک پاکستان کے  قدرتی آفات سے ڈوبے ہوئے صوبہ سندھ  کے محکمہ خوراک میں ایک سال کے دوران 60 کروڑ 77 لاکھ 55 ہزار روپے کے گھپلے ہوئے  جب کہ  محکمہ خوراک اور سندھ حکومت کی نااہلی سے گزشتہ 2 برس سے ڈوبے ہوئے صوبہ سندھ کا عوام  شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آف سندھ کی رپورٹ کےمطابق 14 ارب 26 کروڑ 83 لاکھ روپے  کی آڈٹ رپورٹ میں ایک سال کے دوران سندھ کے تمام اضلاع  میں  موجودمحکمہ خوراک کے گوداموں اور دفاتر میں  گھپلوں  اور ملازمین کی  غفلت کی وجہ سے محکمہ کو  60 کروڑ 77 لاکھ 55 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
ضلع گھوٹکی ، بینظیر آباد، ملیر ، اورخیرپور  میں موجود محکمہ خوراک کے دفاتر میں 20 ہزار 771 پرانی بوریاں نیلام نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ کو 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جب کہ ضلع گھوٹکی اور سکھر کے فوڈ انسپیکٹرز کی جانب سے محکمہ کو ایک کروڑ 5 لاکھ 57 ہزار روپے کے بقایات جات ادا نہیں کئے گئے ۔
دی نیوز ٹرائب کو دستیاب رپورٹ کے مطابق  ضلع لاڑکانہ، میرپور خاص اور دادو سمیت سندھ کے 8 اضلاع میں آبادگاروں کو دیا ہوا باردانہ واپس نہ لینے کی مد میں محکمہ کو ایک کروڑ 17 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، بینظیر آباد اور کراچی میں ملازمین کی لاپرواہی سے ایک کروڑ 23 لاکھ روپے کی گندم ضایع ہوئی۔
گزشتہ برس اور حالیہ سیلاب  کی وجہ سے جہاں صوبہ سندھ کے  2 کروڑ افراد متاثر ہوئے وہیں محکمہ خوراک کی مجرمانہ غفلت، نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے سرکاری خرانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اور کئی ٹن گندم خراب ہوئی ۔
گزشتہ برس سیلاب  میں  سب سے زیادہ متاثر اضلاع لاڑکانہ اور شکارپور کے فوڈ کنٹرولرز کی جانب سے 37 کروڑ روپے کی خریدی گئی گندم ملازمین کی غفلت   کی وجہ سے ہزاروں ٹن گندم  خراب ہوئی اور لاکھوں لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
دی نیوز ٹرائب کو دستیاب رپورٹ کے مطابق ضلع جیکب آباد، دادو، شکارپور اور میرپور خاص سمیت  10 اضلاع کے دفاتر کی جانب سے 23 ہزار 247 سےزائد بوریاں جمع نہ کرانے کی وجہ سے 16 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا جب کہ ان ہی اضلاع میں ملازمین کی غفلت کی وجہ سے 5 کروڑ روپے کی گندم ضایع ہوئی۔
مسلسل 2 برس سے تاریخی سیلاب کا سامنا کرنے والے پاکستانی صوبہ سندھ میں 2 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ، حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرایک کروڑ سے زائد افراد تاحا ل غذائی قلت کاسامنا کر رہے ہیں  جب کہ صوبہ کے خوراک، صحت اور دوسرے اہم محکموں میں کرپشن سے کروڑوں لوگ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ قومی خزانے کو نقصان بھی ہو رہا ہے۔

حمزہ بہن کہہ دیں معاملہ ختم،عائشہ


اسلام آباد : پاکستانی پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہبازشریف کی مبینہ بیوی عائشہ احد ملک نے کہا ہے کہ وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر مجھے بہن کہ دیں تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔
اسلام آباد پریس کلب میں عائشہ احد ملک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حمزہ شہباز سے شادی کو ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے جب انہوں نے حمزہ سے شادی کو منظر عام پر لانے کی بات کی تو پنجاب حکومت ان کے خلاف ہوگئی اور تب سے انہیں اور ان کے خاندان پر مظالم ڈھائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس موقع پر عائشہ احد ملک سے جب نکاح نامہ دکھانے کو کہا گیا تو وہ قاصر رہیں۔
عائشہ کا مزید کہناتھاکہ پریس کانفرنس سے قبل بھی انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں تاہم وہ انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گی۔

Thursday, 27 October 2011

دل جوان ہو تو عمر کا کوئی تصور نہیں


بھوپال : سر پر سہرا سجانا بیشتر نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے مگر بھارت میں 120 سالہ شخص نے اپنی عمر سے نصف خاتون سے دوسری شادی رچا کر سب کو حیران کردیا ہے۔
شمال مشرقی بھارتی ریاست مدھیہ پردیشن کے گاﺅں ست گھڑی میں 120 سالہ حاجی عبد النور نے 60 سالہ سموئی بی بی کے ساتھ اپنے گاﺅں کے 500 مہمانوں کے سامنے نکاح کیا۔
اس شادی کے بعد عبدالنور نے خود کو دنیا کا سب سے معمر دولہا قرار دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
حاجی صاحب کی پہلی زوجہ 2005ءمیں انتقال کر گئی تھی اور اس کے بعد وہ اپنے بچوں پر شادی کرانے کے لئے زور دیتے رہے۔
ان کے بیٹے کے مطابق 100 سال سے زائد عمر کے شخص کے لئے دلہن کی تلاش کوئی آسان کام نہیں مگر ہم اپنے لئے نئی ماں ڈھونڈنے میں کامیاب رہے۔
اس وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں 114 سالہ جاپانی شخص کو معمر ترین شخص ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

CIA drone attacks in Pakistan killing few high-ranking terrorists :


CIA drone attacks in Pakistan killed at least 581 militants last year, according to independent estimates. The number of those militants noteworthy enough to appear on a U.S. list of most-wanted terrorists: two.

Despite a major escalation in the number of unmanned Predator strikes being carried out under the Obama administration, data from government and independent sources indicate that the number of high-ranking militants being killed as a result has either slipped or barely increased.
Even more generous counts – which indicate that the CIA killed as many as 13 “high-value targets” – suggest that the drone program is hitting senior operatives only a fraction of the time.
After a year in which the CIA carried out a record 118 drone strikes, costing more than $1 million apiece, the results have raised questions about the purpose and parameters of the campaign.
Senior Pakistani officials recently asked the Obama administration to put new restraints on a targeted-killing program that the government in Islamabad has secretly authorized for years.
The CIA is increasingly killing “mere foot soldiers,” a senior Pakistani official said, adding that the issue has come up in discussions in Washington involving President Asif Ali Zardari. The official said Pakistan has pressed the Americans “to find better targets, do it more sparingly and be a little less gung-ho.”

Experts who track the strikes closely said a program that began with intermittent lethal attacks on al-Qaeda leaders has evolved into a campaign that seems primarily focused on lower-level fighters. Peter Bergen, a director at the New America Foundation, said data on the strikes indicate that 94 percent of those killed are lower-level militants.
“I think it’s hard to make the case that the 94 percent cohort threaten the United States in some way,” Bergen said. “There’s been very little focus on that question from a human rights perspective. Targeted killings are about leaders – it shouldn’t be a blanket dispensation.”
Even former CIA officials who describe the drone program as essential said they have noted how infrequently they recognized the names of those killed during the barrage of strikes in the past year.
The CIA declined to comment on a program that the agency refuses to acknowledge publicly. But U.S. officials familiar with drone operations said the strikes are hitting important al-Qaeda operatives and are critical to keeping the United States safe.
“This effort has evolved because our intelligence has improved greatly over the years, and we’re able to identify not just senior terrorists, but also al-Qaeda foot soldiers who are planning attacks on our homeland and our troops in Afghanistan,” said a U.S. official, who spoke on the condition of anonymity to discuss the classified program.
“We would be remiss if we didn’t go after people who have American blood on their hands,” the official said. “To use a military analogy, if you’re only going after the generals, you’re likely to be run over by tanks.
The data about the drone strikes provide a blurry picture at best, because of the reliance on Pakistani media reports and anonymous accounts from U.S. government sources. There are also varying terms used to describe high-value targets, with no precise definitions.
Even so, the data suggest that the ratio of senior terrorism suspects being killed is declining at a substantial rate. The New America Foundation recently concluded that 12 “militant leaders” were killed by drone strikes in 2010, compared with 10 in 2008. The number of strikes soared over that period, from 33 to 118.
The National Counterterrorism Center, which tracks terrorist leaders who are captured or killed, counts two suspects on U.S. most-wanted lists who died in drone strikes last year. They are Sheik Saeed al-Masri, al-Qaeda’s No. 3, and Ahmed Mohammed Hamed Ali, who was indicted in the 1998 bombings of U.S. embassies in East Africa before serving as al-Qaeda’s chief of paramilitary operations in Afghanistan.
According to the NCTC, two senior operatives also were killed in drone strikes in each of the preceding years.
When the Predator was first armed, it was seen as a weapon uniquely suited to hunt the highest of high-value targets, including Osama bin Laden and his deputy, Ayman al-Zawahiri. For years, the program was relatively small in scale, with intermittent strikes.
U.S. officials cite multiple reasons for the change in scope, including a proliferation in the number of drones and CIA informants providing intelligence on potential targets. The unmanned aircraft have not gotten the agency any closer to bin Laden but are regarded as the most important tool for keeping pressure on al-Qaeda’s middle and upper ranks.

Officials cite other factors as well, including a shift in CIA targeting procedures, moving beyond the pursuit of specific individuals to militants who meet secret criteria the agency refers to as “pattern of life.”
In its early years, the drone campaign was mainly focused on finding and killing militants whose names appeared on a list maintained by the CIA’s Counterterrorist Center. But since 2008, the agency has increasingly fired missiles when it sees certain “signatures,” such as travel in or out of a known al-Qaeda compound or possession of explosives.
“It’s like watching ‘The Sopranos’: You know what’s going on in the Bada Bing,” said a former senior U.S. intelligence official, referring to the fictional New Jersey strip club used for Mafia meetings in the HBO television series.
Finally, CIA drone strikes that used to focus almost exclusively on al-Qaeda are increasingly spread across an array of militant groups, including Taliban networks responsible for plots against targets in the United States as well as attacks on troops in Afghanistan.
In recent weeks, the drone campaign has fallen strangely silent. The last reported strike occurred Jan. 23 south of the Pakistani city of Miram Shah, marking the longest pause in the program since vast areas of Pakistan were affected by floods last year. Speculation in that country has centered on the possibility that the CIA is holding fire until a U.S. security contractor accused of fatally shooting two Pakistani men last month is released from a jail in Lahore.
U.S. officials deny that has been a factor and describe the lull as a seasonal slowdown in a program expected to resume its accelerated pace.
The intensity of the strikes has caused an increase in the number of fatalities. The New America Foundation estimates that at least 607 people were killed in 2010, which would mean that a single year has accounted for nearly half of the number of deaths since 2004, when the program began.
Overall, the foundation estimates that 32 of those killed could be considered “militant leaders” of al-Qaeda or the Taliban, or about 2 percent.
The problem does not appear to be one of precision. Even as the number of strikes has soared, civilian casualty counts have dropped. The foundation estimates that the civilian fatality rate plunged from 25 percent in 2004 to 6 percent in 2010. The CIA thinks it has not killed a single civilian in six months.
Defenders of the program emphasize such statistics and say that empirical evidence suggests that the ramped-up targeting of lesser-known militants has helped to keep the United States safe.
The former high-ranking U.S. intelligence official said the drone campaign has degraded not only al-Qaeda’s leadership, but also the caliber of the organization’s plots.
Thwarted attacks traced back to Pakistan over the past two years – including a botched attempt to blow up a vehicle in New York’s Times Square – are strikingly amateurish compared with the attacks of Sept. 11, 2001, and other airline plots that followed, the argument goes.
“Pawns matter,” the former official said. “It’s always more dramatic to take the bishop, and, if you can find them, the king and queen.”

Wednesday, 26 October 2011

ترکی،ملبےسے3 دن بعد نوجوان زندہ برآمد


ایرک : جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے اس محاورے کی صداقت ایک بار پھر ترکی میں اس وقت ثابت ہوگئی جب 7.6 شدت کے تباہ کن زلزلے کے 61 گھنٹے بعد 18 سالہ نوجوان کو عمارت کے مبلے سے زندہ نکال لیا گیا۔
اس بچی کی 73 سالہ نانی گل سعادت کو بھی زندہ ملبے سے نکال لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی میں اتوار کے روز آنے والے زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 459 تک جاپہنچی ہے۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق امدادی کارکنوں نے 18 سالہ Eyup Erdem کو کئی منزلہ عمارت کے مبلے سے علی الصبح نکالا۔
اس سے قبل گزشتہ روز 2 سالہ بچی اور اس کی ماں کو زلزلے سے تباہ ہونے والی عمارت سے 48 گھنٹے بعد نکالا گیا تھا

Tuesday, 25 October 2011

India's Silent War


A 40-year long civil war has been raging in the jungles of central and eastern India. It is one of the world's largest armed conflicts but it remains largely ignored outside of India.  
Caught in the crossfire of it are the Adivasis, who are believed to be India's earliest inhabitants. A loose collection of tribes, it is estimated that there are about 84 million of these indigenous people, which is about eight per cent of the country's population.  
For generations, they have lived off farming and the spoils of the jungle in eastern India, but their way of life is under threat. Their land contains mineral deposits estimated to be worth trillions of dollars. Forests have been cleared and the Indian government has evacuated hundreds of villages to make room for steel plants and mineral refineries.
The risk of losing everything they have ever known has made many Adivasis fertile recruits for India's Maoist rebels or Naxalites, who also call these forests home.
The Maoists' fight with the Indian government began 50 years ago, just after India became independent. A loose collection of anti-government communist groups - that initially fought for land reform - they are said to be India's biggest internal security threat. Over time, their focus has expanded to include more fundamental questions about how India is actually governed.
In their zeal for undermining the Indian government, Maoist fighters have torched construction equipment, bombed government schools and de-railed passenger trains, killing hundreds. In the name of state security, several activists who have supported the Maoists have been jailed and tortured. Innocent people have also been implicated on false charges. These are often intimidation tactics used by the government to discourage people from having any contact with the Maoists.
The uprising by Maoist fighters and its brutal suppression by the Indian government, has claimed more than 10,000 lives since 1980, and displaced 12 million people. Many of the victims are not even associated with either side. They are simply caught in the crossfire. And the violence is escalating as both sides mount offensive after counter-offensive.
Al Jazeera's Imran Garda travelled to the Indian states of Chhattisgarh, Jharkhand, Orissa and West Bengal to get a secret glimpse into the world of the Naxalites and to meet with rebel fighters as well as those victimised by this conflict.

Monday, 24 October 2011

Winter arrives but quilt demand declines


ISLAMABAD - Intermittent rains followed by a slight chill in the air, gentle sunlight in the afternoon and freezing cold from dusk to dawn are evident signs that winter has officially set in. Temperatures may be dropping with the passing days, but the bedding stores are just warming up as customers begin shopping for quilts and blankets. Bedding storeowners at G-6 (Aabpara and Melody Market), G-7, G-9, G-10, G-11, F-10, have not only started preparing the quilts but also put on display a wide range of quilts of various designs and fabrics. However, in G-10 and G-11 Markaz- which probably have the largest markets for quilts, bedsheets, blankets, and mattresses in the city, the owners are of the views that they are witnessing a downslide in business.
The business of hand-made and machine-made quilts and blankets is picking up gradually and will peak when the winter season will be in full swing. “We had been sitting idle for the whole month of September and even until mid-October. Finally we received some orders. Within two days my co-workers and myself finished sewing 15 quilts,” said Muhammad Ramzan, a quilt-maker working at a G-11 quilt store.
“I remember around seven to eight years ago we used to get orders for quilts from mid-September. Gradually our working season is getting shortened to hardly one month,” he added.
“Maybe it is because the increase in population density, mushrooming buildings, excessive energy burning and vehicles are gradually warming up the city,” he said, talking about the delay in the onset of winter. For quilt-makers of the city, this simply translates into fewer work orders, reduced earnings every year and a change of profession. Hamza Satti, a quilt maker from G-7 Markaz said, “Nowadays storeowners are using automated machines to prepare cotton, which has increased our working speed, but reduced our working period to only around a month.” “During peak season I used to make at least five quilts a day. Now it has come down to two on average. We have to think of alternative professions in the future if we want to survive,” he added. Hamza earns Rs 150 to 200 per quilt, which is not enough.
Qamar Hussain, another quilt maker at Aabpara market said, “Winter used to be our best season. We sewed at least four to five quilts a day. We used to spend the winter period making quilts and the rest of the year making pillows and mattresses. Now we sit almost idle during our best business season.” 
Hussain usually earns around Rs 120 per quilt and is now preparing to change his profession. He said a quilt took about three hours to make by hand using only a long needle (kandooi) that looks like a bow and a needle. He informed that prices of cotton and other related stuff had gone up so that he was compelled to increase prices of new quilts. He said the cost of repairing old quilts had also increased owing to the price-hike. He said rates charged for mending old quilts varied and that he charged about Rs 200 to Rs 300 to repair a single quilt. Kashif Pervaiz, another worker of Quilt and Blanket Store at G-11 Markaz, said, “Traditional quilts are no longer the first choice of consumers because a big market of readymade light woollen blankets and comforters are gradually growing in the city.”
“People are opting for these items because the weather is never cold enough for traditional cotton quilts,” he added. “Moreover, woollen blankets and comforters are washable.”
AAB-1
He said that in making the quilts, Razai artisans of his community used the traditional textile - skills of cotton carding, cotton voile-making and quilting. He said that cotton carding was the process of preparing cotton to use as filling in a quilt. “A worker uses two carders. The carders are convex paddles covered with small, fine teeth,” he added. 
Kashif said that workers charged the carders by placing cotton fibres onto one of the carders. Then the worker gently drew the other carder across the face of the first one several times, changing the position of the carders from horizontal to vertical. “In the process of carding, the cotton dross is exposed and removed. ‘Dross’ is simply waste material,” he said. 
Removing the dross leaves behind soft, fine, delicate cotton fibres,” he said. He said that in a typical quilt, the worker started with one kilogram, (2.2 pounds) of cotton and worked at carding it for a week. After fully carding the cotton, the worker was left with a mere 100 grams (approximately 3.5 ounces) of cotton to use to fill the comforter. 
“The lighter and fluffier the cotton filling, the warmer and cosier the quilts are. Once the fill is prepared, the artisans go on to make the quilts. It is important to layer the cotton evenly throughout the quilt,” he added. 
Ahad Ahmed, who got his quilt mended from a roadside quilt-maker at I-10 markaz said that he was forced to get his old quilt repaired in view of the escalating prices of new quilts and blankets in the market. 
A readymade polyester quilt is available in shops in the range of Rs 4000 to 5000 while a heavy quilt costs around Rs 2000. A customer looking for second hand quilts and blankets in a weekly bazaar of the federal capital said, even the prices of old blankets are out of the common man means. Another buyer opined that quilts and blankets were available at reasonable prices in the weekly bazaars at Aabpara, Peshawar Mor and Faizabad. It is not just the low-income group, but the middle class and upper middle class who are also opting for the light blankets sold in these sectors, at prices which range between Rs 2000 and 3000. 
Vendors with blankets on their shoulders or bicycles are also seen selling this commodity in the streets and bazaars.

Saturday, 22 October 2011

Benefits of Railways

Sabir

ذمہ دار کون؟


وہ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکے بس کو رکنے کا اشارہ کررہی تھی۔ میں بس میں کھڑا دعا کررہا تھا کہ ڈرائیور اس کے اشارہ کرنے پر بس نہ روکے مگر ایسا نہ ہوا اور بس اس کے قریب جا کر رک گئی۔
وہ منہ پر ڈوپٹہ رکھتے ہوئے بس میں چڑھی تو کنڈیکٹر حرکت میں آگیا اور بس میں پہلے سے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں موجود کئی افراد کو آگے پیچھے کرنے لگا تاکہ بس میں چڑھنے والی دوشیزہ کو جگہ دی جاسکے۔ 
بس میں کھڑے مردوں نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تکلیف برداشت کرکے اُس لڑکی کو جگہ دی۔ بس میں سوار تمام افراد مستقل پریشانی کا شکار تھے،شہر کی شاہراﺅں پر رواں دواں بسوں کی حالت زار بتاتے وقت ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مردانگی کا دعوی کرنے والے مرد لیڈیز کمپارٹمنٹ پر بیٹھنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
صبح کے وقت گھر سے نکلنے والے اُس پرائیوٹ کمپنی میں کام کرنے والے ملازم جس کے آفس دیر سے جانے پر اُس کے پیسے کٹتے ہوں تو اُسے بس میںجہاں جگہ ملتی ہے وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے۔ اور وہ اپنی خوشی سے نہیں بیٹھتا بلکہ اُس کی قمیض کے کالر کو زبردستی پکڑکے بس میں کھینچا جا تا ہے۔
بس میں میرا سفر جاری تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد ایک اورخاتون ڈاکٹر بس کو اشارہ کررہی ہیں اور اس دفعہ پھر ڈرائیور نے ہماری مرضی کے خلاف خاتون کے سامنے بس روک دی ، وہ جب بس میں داخل ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر بس میں حل چل مچھ گئی اور ایک بار پھر کنڈیکٹر نے بڑی جدوجہدکے بعد خاتون کو جگہ دلادی اور بس میں پہلے سے سوار افراد اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ اتنے میں میرے دماغ میں ایک بات آئی کہ کنڈیکٹر کو تو پیسے مل رہے ہیں مگر بھری ہوئی بس کو روکنے کا اشارہ کرنے والی خاتون کو تو خدا نے عقل سلیم دی ہے تووہ بس میں بیٹھنے سے انکار کیوں نہیں کرتی؟
 اس میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بس میں چڑھنے والی خاتون مردوں کو ایسے دیکھتی ہیں جیسے انہوں نے نا قابل معافی گناہ کیا ہو۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں کچھ مردا حضرات مجبوری کے بغیر بھی لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سفر کرنا پسند کرتے ہیںلیکن زیادہ تر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں تعداد ایسے مردوں کی ہوتی ہے جو بس میں سفر کرنے والی خواتین کو دل سے نہ صرف اپنی بہن تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی مدد کی غرض سے انہیں باجی کہہ کہ مخاطب بھی کرلیتے ہیں۔ بس کا سفررواں دواں تھا کہ اس بار ایک آنٹی بس میں داخل ہوئیں تو ساتھ ہی کافی مسافر اتر بھی گئے جس سے آنٹی کو با آسانی جگہ مل گئی اور دیگر مسافروں کو بھی آسانی ہوگئی اوراتنے میں میری منزل بھی آگئی اور میں بھاگ کے بس سے اترا اور سکون کا سانس لیااور ارادہ کیا کہ اس مسئلے پر اپنے خیالات کو لفظوں کی شکل ضروردوں گا۔
ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ بس کے ساتھ ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر سوار پولیس اہلکار کو یہ صورتحال کیوں نظر نہیں آتی؟ اورکیا 100,200روپے کا چالان اس مسئلے کا حل ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ بس میں زبردستی سوار کرنے والے کنڈیکٹر اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں یا عوام جو جلدی اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے مسافروں سے بھری بس میں چڑھ جاتے ہیں؟