وہ سڑک کے کنارے کھڑے ہوکے بس کو رکنے کا اشارہ کررہی تھی۔ میں بس میں کھڑا دعا کررہا تھا کہ ڈرائیور اس کے اشارہ کرنے پر بس نہ روکے مگر ایسا نہ ہوا اور بس اس کے قریب جا کر رک گئی۔
وہ منہ پر ڈوپٹہ رکھتے ہوئے بس میں چڑھی تو کنڈیکٹر حرکت میں آگیا اور بس میں پہلے سے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں موجود کئی افراد کو آگے پیچھے کرنے لگا تاکہ بس میں چڑھنے والی دوشیزہ کو جگہ دی جاسکے۔
بس میں کھڑے مردوں نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تکلیف برداشت کرکے اُس لڑکی کو جگہ دی۔ بس میں سوار تمام افراد مستقل پریشانی کا شکار تھے،شہر کی شاہراﺅں پر رواں دواں بسوں کی حالت زار بتاتے وقت ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مردانگی کا دعوی کرنے والے مرد لیڈیز کمپارٹمنٹ پر بیٹھنا کیوں پسند کرتے ہیں؟
صبح کے وقت گھر سے نکلنے والے اُس پرائیوٹ کمپنی میں کام کرنے والے ملازم جس کے آفس دیر سے جانے پر اُس کے پیسے کٹتے ہوں تو اُسے بس میںجہاں جگہ ملتی ہے وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے۔ اور وہ اپنی خوشی سے نہیں بیٹھتا بلکہ اُس کی قمیض کے کالر کو زبردستی پکڑکے بس میں کھینچا جا تا ہے۔
بس میں میرا سفر جاری تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد ایک اورخاتون ڈاکٹر بس کو اشارہ کررہی ہیں اور اس دفعہ پھر ڈرائیور نے ہماری مرضی کے خلاف خاتون کے سامنے بس روک دی ، وہ جب بس میں داخل ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر بس میں حل چل مچھ گئی اور ایک بار پھر کنڈیکٹر نے بڑی جدوجہدکے بعد خاتون کو جگہ دلادی اور بس میں پہلے سے سوار افراد اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ اتنے میں میرے دماغ میں ایک بات آئی کہ کنڈیکٹر کو تو پیسے مل رہے ہیں مگر بھری ہوئی بس کو روکنے کا اشارہ کرنے والی خاتون کو تو خدا نے عقل سلیم دی ہے تووہ بس میں بیٹھنے سے انکار کیوں نہیں کرتی؟
اس میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بس میں چڑھنے والی خاتون مردوں کو ایسے دیکھتی ہیں جیسے انہوں نے نا قابل معافی گناہ کیا ہو۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں کچھ مردا حضرات مجبوری کے بغیر بھی لیڈیز کمپارٹمنٹ میں سفر کرنا پسند کرتے ہیںلیکن زیادہ تر لیڈیز کمپارٹمنٹ میں تعداد ایسے مردوں کی ہوتی ہے جو بس میں سفر کرنے والی خواتین کو دل سے نہ صرف اپنی بہن تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کی مدد کی غرض سے انہیں باجی کہہ کہ مخاطب بھی کرلیتے ہیں۔ بس کا سفررواں دواں تھا کہ اس بار ایک آنٹی بس میں داخل ہوئیں تو ساتھ ہی کافی مسافر اتر بھی گئے جس سے آنٹی کو با آسانی جگہ مل گئی اور دیگر مسافروں کو بھی آسانی ہوگئی اوراتنے میں میری منزل بھی آگئی اور میں بھاگ کے بس سے اترا اور سکون کا سانس لیااور ارادہ کیا کہ اس مسئلے پر اپنے خیالات کو لفظوں کی شکل ضروردوں گا۔
ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ بس کے ساتھ ساتھ اپنی موٹر سائیکل پر سوار پولیس اہلکار کو یہ صورتحال کیوں نظر نہیں آتی؟ اورکیا 100,200روپے کا چالان اس مسئلے کا حل ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ بس میں زبردستی سوار کرنے والے کنڈیکٹر اس مسئلے کے ذمہ دار ہیں یا عوام جو جلدی اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے مسافروں سے بھری بس میں چڑھ جاتے ہیں؟
0 comments:
Post a Comment