بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حریت کانفرنس (گ) کے سربراہ سید علی گیلانی نےاعلان کیا ہے کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں مذاکرات کی رسمی طور پیشکش کی گئی تو اس پر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔
مسٹر گیلانی واحد علیحدگی پسند رہنما ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے اس بات پر مُصر ہیں کہ بات چیت کا عمل تب تک شروع نہیں ہوسکتا جب تک حکومت ہند جموں کشمیر کو ایک متنازعہ خطہ قرار نہیں دیتی۔
سید گیلانی نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کے دوران کہا: ’ہمارا ایک سسٹم ہے۔ ہماری مجلس شوریٰ ہے، جب ایسی کوئی تجویز سامنے آئے گی، ہم اس پر باہم مشاورت کرینگے۔‘
انہوں مزید بتایا کہ وہ اس بارے میں سماج کے ہم خیال حلقوں کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
سخت گیر مؤقف رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما کا یہ ردعمل ان اخباری اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے، جن میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ حکومت ہند مسٹر گیلانی کو بات چیت کے لیے مدعو کرے گی۔
قابل ذکر ہے کہ ایک سال تک جموں، کشمیر اور لداخ میں مختلف عوامی حلقوں سے ملاقاتوں کے بعد تین سرکاری رابطہ کاروں نے بھارتی وزیرداخلہ پالانیاپن چدامبرم کو ایک رپورٹ پیش کی ہے، جس میں سخت قوانین میں نرمی، کنٹرول لائن کے ذریعہ پاکستانی کشمیر کے ساتھ تجارت میں وسعت اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع جیسی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
صحافی دلیپ پڈگاؤنکر کی سربراہی میں اس تین رکنی ثالثی گروپ کو علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں کامیابی نہیں ملی، کیونکہ علیٰحدگی پسند گروپوں نے ان کے ساتھ بات کرنے کو ’وقار کے خلاف‘ قرار دیا تھا اور بعض نے اشارہ کیا تھا کہ وزیراعظم کی سطح پر ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مقامی حکومت پر الزام عائد کیا کہ کشمیر میں ہندوآبادیوں کو مستقل رہائش فراہم کرکے کشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو بگاڑ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قریب پانچ لاکھ غیرکشمیری لوگوں کو کشمیر کی مختلف جھگی جھونپڑیوں میں بسایا گیا ہے اور ان کی حفاظت پر پولیس کو مامور کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سنہ دو ہزار پانچ میں دوطرفہ بات چیت سے ہی سید علی گیلانی اور ان کے ساتھیوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔ یہاں تک کہ ستمبر دو ہزار تین میں مختلف علیٰحدگی پسند گروپوں پر مبنی حریت کانفرنس دو خیموں میں بٹ گئی تھی۔
بعد میں میرواعظ عمرفاروق کی سربراہی والے حریت دھڑے نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے نائب لال کرشن ایڈوانی کے ساتھ مذاکرات کے دو ادوار کئے۔
کانگریس کے دور اقتدار میں بھی میرواعظ عمرفاروق، محمد یٰسین ملک سجاد غنی لون نے وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ نئی دلّی میں مذاکرات کئے۔
غورطلب ہے کہ اس بار سید علی گیلانی نے کشمیر میں فوجی جماؤ اور اس سے پیدا شدہ انسانی المیوں کی صورتحال کا حوالہ بھی دیا اور بات چیت کو یسکر مسترد بھی نہیں کیا۔
سیاسیات کے پروفیسر گُل محمد وانی کہتے ہیں:’ گیلانی نے تو گیند نئی دلّی کے پالے میں ڈال دی ہے۔ یہ تو نئی دلّی کی نیّت کا امتحان ہوگا۔‘
0 comments:
Post a Comment