پاکستان میں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر سید نوید قمر نے کہا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں کمی سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے تقریباً گزشتہ دس برس کے اندر بجلی کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ مالی سال سنہ دو ہزار دو اور چار میں بجلی کی اوسط فی یونٹ قیمت تین روپے پچانوے پیسے تھی جو اگست دو ہزار گیارہ میں سات روپے چھیاسٹھ پیسے ہوچکی ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریری طور پر پیش کردہ حکومت کی معلومات کے مطابق جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی اس وقت بجلی کی اوسط قیمت پانچ روپے چوالیس پیسے فی یونٹ تھی جو اب دو روپے بائیس پیسے فی یونٹ بڑھی ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار اعجاز مہر کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کی پیش کردہ معلومات میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ تقریبا تین روپے جو حالیہ اضافہ کیا گیا ہے وہ شامل نہیں ہے۔
وفاقی وزیر نے پیر کی شام گئے منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو وقفہ سوالات میں بتایا کہ موجودہ حکومت تاحال تین ہزار تین سو ستتر میگا واٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل کرچکی ہے جبکہ آئندہ دو سے تین سال میں چوبیس سو میگا واٹ مزید بجلی سسٹم میں آ جائے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق جو تاحال بجلی سسٹم میں لائی گئی ہے اس میں چار کرائے کے بجلی گھروں کی تین سو نناوے میگاواٹ بجلی بھی شامل ہے جبکہ باقی بجلی جوہری، ہائیڈل، گیس اور تیل پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سنہ دو ہزار بارہ اور تیرہ میں پانچ مزید ہائیڈل بجلی گھروں سے تین سو اکاسی میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ جس میں الائی خاور (ایک سو اکیس میگا واٹ) ، دبر خاوور (ایک سو تیس) جناح ہائڈرو پاور پروجیکٹ (چھیانوے) گومل زام (سترہ) اور ست پارہ (سترہ میگا واٹ) شامل ہے۔
ان کے بقول آئندہ دو سے تین برس میں چار تھرمل بجلی گھروں سے دو ہزار بیس میگا واٹ بجلی سسٹم میں آجائے گی۔ جس میں نندی پور (سوا چار سو میگا واٹ) چچوکی ملیاں (سوا پانچ سو) گڈو (ساڑھے سات سو) اور فیصل آباد میں متحدہ عرب امارات سے تحفہ میں ملنے والے بجلی گھر سے (تین سو بیس میگا واٹ) شامل ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں توانائی کے بحران پر بحث کے دوران اپوزیشن کے بعض اراکین نے کہا تھا کہ نندی پور اور چِچوکی ملیاں میں قائم ہونے والے بجلی گھروں کی مشینری ایک سال سے کراچی کی بندر گاہ پر پڑی رہی اور مختلف وزارتوں میں خط و کتابت کی وجہ سے وہ قابل استعمال نہ ہوسکی۔ جبکہ بعض نے الزام لگایا کہ اس التویٰ کا سبب رشوت تھی۔
وفاقی وزیر سید نوید قمر نے بتایا کہ مارچ سنہ دو ہزار آٹھ (جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا) اس وقت فرنس آئل کی قیمت پینتیس ہزار ایک سو چھپن روپے فی میٹرک ٹن تھی جو ستبر سن دو ہزار گیارہ میں چونسٹھ ہزار سات سو بیالیس روپے ہوچکی ہے۔
ان کے مطابق گیس کی قیمت دو سو باون روپے ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر تین سو چورانوے روپے جبکہ فی ڈالر کی قیمت باسٹھ روپے پچاسی پیسے سے بڑھ کر ساڑھے اٹھاسی روپے ہوچکی ہے۔
پاکستان میں تیزی سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ان وجوہات کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس اس عرصہ میں ایک سو تریسٹھ اعشاریہ اڑتیس سے بڑھ کر دو سو انسٹھ اعشاریہ پندرہ ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر کے بقول اگر گزشتہ پانچ برس میں دیکھا جائے تو فرنس آئل کی قیمت میں دو سو ستائیس فیصد جبکہ گیس کی قیمت میں چھیاسٹھ فیصد اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھائی گئی۔
سید نوید قمر نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ ترکی سے جہاز پر منگوائے گئے بجلی گھر سے ماہانہ اکیاون میگا واٹ بجلی مل رہی ہے اور حکومت اٹھہتر کروڑ روپے انہیں ادا کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ اس بجلی گھر کو معاہدے کے مطابق دو سو اکتیس میگا واٹ بجلی پیدا کرنی ہے اور انہیں تیل کی فراہمی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت مختلف وجوہات کی بناء پر انہیں تیل کی فراہمی نہیں کر پا رہی ہے اور محض اکیاون میگاواٹ کی خاطر اٹھتر کروڑ ماہانہ (نو ملین ڈالر) ‘کیپیسٹی چارجز’ کی مد میں ادا کر رہی ہے۔
وزیر کے مطابق حکومت نیلم جہلم بجلی گھر بنانے کے لیے صارفین سے دس پیسے فی کلو واٹ فی گھنٹہ سرچارج لیتی ہے اور اب تک ساڑھے سترہ ارب روپے سے زیادہ رقم اکٹھی ہوئی ہے۔
0 comments:
Post a Comment