کراچی: پاکستان کی سرکاری ا یئرلائن ( پی آئی اے) کی جانب سے دبئی بیس کمپنی ٹرانس ورلڈ ایوی ایشن سے ایئرکرافٹ پارٹس کے معاہدے بعد ڈائریکٹر اور جی ایم (پی این ایل) کو 3,3ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا جبکہ انجینئرنگ کے شعبے کو تباہ کرنے کی سازش کی تکمیل کے لئے فنانس منیجر کو بھی کام سے روک دیا گیا ہے جن کے جلد تبادلے کا امکان ہے ۔
نمائندہ دی نیوز ٹرائب کو ذرائع نے بتایا کہ غیر ملکی کمپنی سے یہ معاہدہ 40ملین سالانہ کا ہے جبکہ 5سال میں یہ اربوں روپے تک پہنچ جائے گا۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے جہاز گراونڈ ہونے کی وجوہات بھی سامنے آرہی ہیں دبئی بیس کمپنی کی جانب سے معاہدے کے بعد ایک مرتبہ بھی جہاز کی مرمت کا کام نہیں کیا گیا ۔
ذرائع نے بتایا کہ دبئی بیس کمپنی ٹرانس ورلڈ ایوی ایشن سے ایئرکرافٹ پارٹس کے 5سالہ معاہدے کے بعد اب ڈائریکٹر پی این ایل خالد افتخار اور پی این ایل کے جی ایم حنیف رانا کو 3,3ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا ہے جبکہ ان جبری رخصت پر بھیجنے کا مقصد اپنی نا اہلی کو چھپانا ہے نا کہ اگر کوئی دبئی بیس کمپنی سے معاہدے پر سوالات کرتا ہے تو اس کو یہ بتایا جائے کہ ڈائریکٹر پی این ایل اور پی این ایل کے جی ایم کو جبری رخصت پربھیجا جا چکا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ دوسری جانب 24ستمبر 2011کو پی آئی اے کی جانب سے غیر ملکی کمپنی سے ایئرکرافٹ پارٹس کے معاہدہ کے بعد معاہدے کی تکمیل کے لئے 6 اکتوبر کو جنرل منیجر عمر رزاق کی جانب سے فنانس منیجر کو دبئی بیس کمپنی ٹرانس ورلڈ ایوی ایشن کے نام 25لاکھ ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ 7اکتوبر کو فنانس منیجر محمد شاہد اسلم کی جانب سے اعتراضات ظاہر کئے گئے اور 25لاکھ ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے سے انکار کردیا۔
فنانس منیجر نے جواب میں کہا کہ دبئی بیس کمپنی سے معاہدہ ( ایس او پی) 1997کے تحت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق دو سال سزا اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے اور یہ معاہدہ ساتھ ساتھ مقابلہ جاتی ایکٹ کی خلاف ورزی بھی ہے جس کی وجہ سے 25لاکھ ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ جاری نہیں کیا جاسکتا۔ اور لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے کے لئے معاہدے کی کاپی بھی منسلک نہیں کی گئی جس کے بعد فنانس منیجر محمد شاہد اسلم کو لیٹر آف کریڈٹ جاری نہ کرنے اور اعتراضات کو ظاہر کرنے پر مزید کام سے روک دیا گیا۔
دی نیوز ٹرائب ذرائع کے مطابق جلد تبادلے کاامکان بھی ہے واضح رہے کہ 24ستمبر کو دبئی بیس کمپنی سے معاہدے کے بعد پی آئی اے کے انجینئرنگ شعبے کے 4ہزار سے زائد ملازمین کی ملازمتیں بھی خطرے میں پڑ چکی ہیں جبکہ پی آئی اے کا انجینئرنگ شعبہ سعودی ایئرلائن، ایران ایئرلائن سمیت دیگر 28ایئرلائن کی مرمت کا کام کرتا تھا اور اپنے کام میں انتہاءمہارت کا حامل تھا۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کا انجینئرنگ شعبہ گزشتہ 6ماہ میں کروڑوں آمدنی بھی دے چکا ہے لیکن معلوم نہیں کہ کیا وجوہات ہیں کہ جس کی بناءپر اس انتہائی مہارت کے حامل شعبہ کو تباہ کیا جا رہا ہے اور دبئی بیس کمپنی جس سے معاہدہ کیا گیا ہے وہ معیار پر بھی پورا نہیں اترتی۔
ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کا یہ شعبہ 700رجسٹرڈ کمپنیوں سے ایئرکرافٹ پارٹس کا سامان خریدتا تھا اور وہ پی آئی اے کو 50سے 55فیصد تک رعایت دیتے تھے جبکہ ٹرانس ورلڈ ایوی ایشن کمپنی سے معاہدے کے بعد اب 10سے 15فیصد تک ڈسکاونٹ حاصل ہوگا۔
معاہدے کو 15روز گزرجانے کے باوجود پی آئی اے کے طیارے خرابیوں کے باعث گراونڈ ہو رہے ہیں لیکن کمپنی کی جانب سے ایک مرتبہ بھی کام نہیں کیا گیا جس سے ادارے کو روزانہ کی بنیاد پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔
0 comments:
Post a Comment