بجلی کا بحران اور سیاست ~ The News Time

Tuesday 11 October 2011

بجلی کا بحران اور سیاست


صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے انتباہ کیا ہے کہ بجلی کے بحران پر کسی کو طاقت کی سیاست نہیں کرنے دیں گے‘ توانائی کے مسائل پر مستقل بنیادوں پر قابو پایا جائے اور بجلی کی فراہمی بہتر بنائی جائے۔ گزشتہ پیر کو ایوان صدر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جنابِ صدر نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل جمہوری حکومت کے خاتمے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جمہوری قوتیں متحد ہوجائیں‘ نظام کو پٹڑی سے اتارنے کی غیر جمہوری کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اجلاس میں بجلی کی دستیابی‘ معاشی صورت حال‘ امن وامان‘ اتحادی جماعتوں سے تعلقات اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال کا جائزہ بھی لیا گیا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ایوانصدر میں پارٹی اجلاس اور سیاسی سرگرمی عدالت عالیہ لاہور کے حکم کے خلاف ہے یا نہیں جس میں کہا گیا تھا کہ آصف علی زرداری صدر مملکت کی حیثیت سے ایوان صدر کو پارٹی سرگرمیوں اور اجلاس کے لیے استعمال نہیں کرسکتے تاہم یہ کام تسلسل سے ہورہا ہے۔ جناب زرداری ایک سیاسی جماعت کے شریک صدر نشین بھی ہیں جب کہ صدر مملکت آئینی لحاظ سے غیر جانبدار ہوتا ہے۔ لیکن ان کے پیشرو جنرل پرویز مشرف تو اپنی بنائی ہوئی ق لیگ کے جلسوں کی صدارت بھی کرتے تھے اور علی الاعلان کہتے تھے کہ ان کی پارٹی کو ووٹ دیا جائے۔ جناب زرداری کے لیے عدالت عالیہ کے حکم پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ صدر مملکت بعد میں ہیں اور اپنی پارٹی کے عملاً سربراہ پہلے ہیں۔ انہوں نے مذکورہ اجلاس میں بجلی کے بحران پر طاقت کی سیاست کرنے والوں کو متنبہ کیا ہے۔ یہ اشارہ واضح طور پر ان کی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ ن کی طرف ہے۔ لیکن بجلی کی عدم دستیابی پر گزشتہ دنوں جو احتجاج ہوا ہے وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ تھا۔ یہ طاقت کی سیاست نہیں بلکہ مجبور اور تنگ آئے ہوئے عوام ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق سڑکوں پر نکل آئے تھے اور عوامی طاقت کا مظاہرہ حکومت وقت کی سمجھ میں بھی فوری طور پر آگیا۔ چنانچہ آناً فاناً بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا اور لوڈ شیڈنگ کم ہوگئی۔ حکومت نے عوام ہی سے حاصل کردہ 11 ارب روپے بجلی کمپنیوں کو دیے اور انہوں نے تیل کمپنیوں کو۔ یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا مگر حکمران صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ بے شمار سرکاری ادارے اور خود حکومتیں نادہند ہیں جس کا عذاب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین برس میں موجودہ حکومت نے بجلی کے ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا اور یہ رپورٹیں بھی ہیں کہ نجی پاور پلانٹس کی مد میں جناب صدر نے اپنے دوستوں کو نوازا اور اربوں روپے ضائع کردیے۔ عوام کے سڑکوں پر آنے کے بعد بجلی کی فراہمی میں اضافے سے یہ سبق بھی ملا ہے کہ دیگر مسائل بھی سڑکوں پر نکلنے سے حل ہوں گے اور یہ سبق خود حکمرانوں نے دیا ہے۔ اس کا جواب تو حکمران ہی دے سکتے ہیں کہ بجلی کا بحران کیوں پیدا کیا کہ کسی کو طاقت کی ساست دکھانے کا موقع ملا۔ جناب زرداری سے زیادہ یہ بات اور کون جانتا ہے کہ عوامی طاقت کے مظاہرے ہی سے وہ موجودہ عدلیہ کو بحال کرنے پر مجبور ہوئے جس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی لینا چاہتی ہے ورنہ تو جناب صدر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ پیپلزپارٹی کو ججوں کی بحالی کے وعدے پر نہیں‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان کی فراہمی کے منشور پر ووٹ ملے ہیں۔ یہ الگ بات کہ سب کچھ اس منشورخلاف ہوا ہے۔ اسی اجلاس میں وفاقی وزیر پانی و بجلی نوید قمر نے مطلع کیا کہ بجلی کی پیداوار کو ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بڑھا کر بحران کو کم کیا گیا ہے لیکن یہ اقدام عوام کے مظاہرے اور توڑ پھوڑ کے بعد ہی کیوں کیا گیا؟ نوید قمر نے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ ملک کے سب سے بڑے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ ہائیڈرو پاور منصوبے دیامیر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد اگلے ہفتہ رکھا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم 18 اکتوبر کو سنگ بنیاد رکھیں گے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد کئی بار رکھا جا چکا ہے لیکن اب تک یہ ”سنگ بنیاد“ بے بنیاد ہی رہا۔ اپریل 2006ءمیں صدر جنرل پرویز مشرف نے بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا‘ اس سے اگلے سال ان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اس کا اعادہ کیا۔ خود موجودہ حکومت بھی ایک بار سنگ بنیاد رکھ چکی ہے لیکن اب تک اس پر کام شروع نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور حکومت ایک بار پھر سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کرے کیوں کہ تخمینہ کے مطابق اس پر اگر ابھی کام شروع ہوگیا تو مکمل ہونے میں کم از کم 12 برس لگیں گے اور 12 برس بعد کون اس کا افتتاح کرے گا‘ کس کو کیا معلوم۔ اس اثنا میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے اور اب بجلی کے بلوں کی ادائیگی متوسط طبقہ کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے۔ ہر طرف اندھیر ہے ایک بجلی ہی کیا۔ گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کی مشقِ فضول کے بعد اب سرکاری اداروں میں ہفتہ میں دو چھٹیاں کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت کو جہاں زور لگانا چاہیے وہاں نہیں لگا رہی۔ توانائی کے بحران کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی بنائی جارہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس معاملے کو ٹالنا ہو اسے کمیٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment