دوردیس کی پاکستانی لڑکی ~ The News Time

Tuesday 1 November 2011

دوردیس کی پاکستانی لڑکی

وہ پاکستان سے اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑاچھے دنوں کی امیدلئے برطانیہ گئی تھی۔یہ اچھے دن اگرچہ معاشی طورپرمطلوب نہیں تھے لیکن پرسکون گھر،خوشیوں بھرے لمحات اورزندگی کامشن پوراکرنے کودستیاب گھڑیاں مل جانا بھی تو خوشی ہی کہلاتاہے۔
کہنے کوتووہ برسوں پہلے دوردیس چلی گئی لیکن ناجانے کیوں اس کادل اب بھی انہی گردآلودسڑکوں،موت کا رقص دیکھتی گلیوں،کچھ چھین لئے جانے کے خوف سے لرزاں چہروں،کچھ کردکھانے کی تڑپ سے تمتماتی جبینوں اورنوجوانوں کی انمول دولت رکھنے والے دیس کےساتھ ہی دھڑکتاہے۔
اس کاجی چاہتاہے کہ اس کے دیس پاکستان میں جو کچھ ہو وہ سب سے پہلے جان لیاکرے۔اس شوق کی وجہ سے اکثرایسابھی ہوتاہے کہ وہ پاکستان میں موجودسماجی طورپرانتہائی فعال اپنی والدہ سے جب کسی ایونٹ کاذکرکرتی اورانہیں لاعلم پاتی ہے توتفصیل بھی اسے ہی مہیاکرناپڑتی ہے۔ایسے میں یقینااس کی امی کو کہناچاہئے کہ کچھ تویہاں والوں کے لئے بھی چھوڑ دولیکن وہ شایداس لئے ایسانہیں کہتی ہوں گی وہ اپنی گودمیں پلنے والی کی صلاحیت اورجذبے دونوں ہی سے باخبرہیں۔
پاکستان کے معروف ترین میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعدزندگی کے اہم ترین موڑشادی سےگزرکروہ بھی بہت ساری دیگرپاکستانیوں کی طرح ملک سے باہرچلی گئی۔بس وہ یہ نہیں کرسکی کہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں اورحالات کوبھول سکتی اس لئے اب بھی اس کادل یہیں اٹکاہوا۔
انتہائی سمجھدار،مخلص،محبت سے گندھی،پرشفقت اورخیرخواہ شخصیت رکھنے والی وہ دھان پان سی پاکستانی لڑکی وطن عزیزکے حالات کی بہتری اوربھول جانے والے سبق کویادکرنے کے لئے اتنی بے چین ہے جتنے شاید یہاں کے رہنے والے 18کروڑنفوس بھی نہ ہوں۔اس کاماننا ہے کہ ایساوہ اکیلی ہی نہیں کرتی بلکہ بہت سے پاکستانی باہررہ کربھی گھرکے لئے سوچتے،کڑھتے ،کچھ کرتے یاچپ رہتے ہیں۔
اس سے جب بھی بات ہوئی موضوع گفتگوپاکستان،پاکستانی اورپاکستانیت ہی رہا۔ وہ صرف محب وطن نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کرہے جبھی توایک لمحے تعلیم پرپریشاں نظرآنے والی دوسرے لمحے طبی سہولیات کا ذکرکرکے افسردہ ہوتی ہے،فورا ہی سماجی روئے موضوع بنتے ہیں تواگلے سانس میں سیاست کے جھیل جھمیلے گفتگوکارخ پلٹ ڈالتے ہیں،میڈیاکی کرنیاں ،ناکرنیاں پریشان کرتی ہیں توادھرادھربکھری کامیابیوں سے حوصلہ کشیدکرلیتی ہے۔ مجال ہے کہ کبھی کوئی بات اس کی ذات سے متعلق کی گئی ہو اوروہ کچھ دیراسے موضوع بنانے پرآمادہ رہی ہو۔بسااوقات یہ ہواکہ رسم دنیانبھانے کوخیرخیریت پوچھ لی تو2سے 3روزتک جواب ہی نہیں ملا۔
اس کے اندرپکنے والے لاوے کااندازہ توتھا،کچھ پہلوئوں پربہت سردوگرم بحث بھی ہوتی لیکن وہ ہمیشہ اتنی خوبصورتی سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرکے اپنے موقف پراڑی رہتی ہے گویاوہ خودکے درست ہونے کا یقین ہی نہیں مصمم یقین رکھتی ہے۔چند روزقبل برطانیہ میں رہائش پزیرپاکستانیوں اورپاکستان کے بارے میں ان کے احساسات پربات ہوئی تووہ پھٹ ہی پڑی۔
پاکستان ٹوٹ جائے گا؟امن کب ہوگا؟بنگلہ دیش جیسے حالات بن گئے کیابلوچستان الگ ہو رہاہے؟جیسے بھاری بھرکم سوالات لئے وہ اپنے لفظوں سمیت یوں میرے سامنے آکھڑی ہوئی گویاجواب لئے بغیرٹلنے کی نہیں لیکن پھرخودہی کہنے لگی یہاں آنے والے سبھی کام کرتے رہو،پیسے کمائوعیاشی کرو،ملک کی پرواہ نہیں کی دھن میں مگن ہیں۔
اس کاکہناتھابرطانیہ میں پاکستان جیسادائیں بائیں کامسئلہ نہیں بلکہ مذہب اورلادینیت کوپسندکرنے والوں کی کشمکش ہے جس میں امتیازصرف پیدائشی برطانوی ہی کو حاصل ہے۔باقیوں کے لئے قانون اس وقت تک ہے جب تک یہاں کے کرتادھرتائوں کواس سے کوئی مسئلہ نہ ہو۔البتہ اتنی اچھائی ضرورہے کہ طرزفکرکااختلا ف لڑائی کی صورت کم ہی اختیارکرتاہے اورفساد توبنتاہی نہیں ہے۔
مگردوردیس بسنے والی وہ پاکستانی لڑکی آخر ٹھہری سداکی پاکستانی، شاید اپنے لاشعورمیں موجودحالات کی بہتری کے احساس کو دبا نہ سکنے کی وجہ سے اس کی زبان پر آہی گیا کہ برطانوی میڈیاچین ہی چین اس لئے لکھتاہے کہ ان کے پاس کوئی خبرہی نہیں یہ زبردستی کر کے خبریں پیداکرتے ہیں۔پاکستانیوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے اوروہ ایسا سمجھنے میں کچھ غلط بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں بسنے والوں سے اسے گلہ ہے اوربجا ہے کہ اپنی شناخت کی بقاء کی جنگ لڑنے والے پاکستانی نژادبرطانویوں کے برعکس پانچ دریائوں اوردوریگستانوں کی سرزمین پربسنے والے پاکستانی عیاشی کررہے ہیں یہاں رہنےوالوں کوعلم یاادراک نہیں کہ دنیاجوکچھ کررہی ہے اس میں ہمیں کیاکرناچاہئے۔
ارباب بست وکشاد سے بھی اسے گلہ ہے کہ ظلم ہو رہاہے،نفرت بوئی جا رہی ہے،تقسیم گہری کی جا رہی ہے،مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ایسے میں امریکہ،برطانیہ نا سہی مسلم ملکوں کے اسکالرز،علماء،دانشور،رہنما یہ کیوں نہیں سوچتے حل کی فکرکیوں نہیں کرتے؟عارضی اوروقتی سلوشن کوہی پسند کرتے ہیں؟
اس کایہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کے درمیان مصنوعی طورپرپیداکئے جانے والے مختلف طبقات میں جو فرق ہے وہ برطانیہ میں نہیں لیکن یہاں کے رہنے والے کم ازکم ہرچئی چیزسے ویسے متاثریامرعوب بھی نہیں ہوتے جتنی جلد پاکستان میں رہنے والے پاکستانی ہو جاتے ہیں۔اسے یہ بھی دکھ ہے کہ وہ لوگ جو حالات بدلنے کاحوصلہ،سکت اورصلاحیتیں رکھتے ہیں وہ تھکن کاشکارہیں،خودمذمتی کی وجہ سے ڈیلیورکرنے کو تیارنہیں،نفساتی تسکین کے لئے گفتگوکوہی کافی سمجھتے ہیں،سوچے سمجھے بغیرکرنااورنتیجے کے لئے کوشش ہی نہ کرنا اپنا شیوہ بنا لیاہے،سوشل میڈیااورجدید ابلاغیات کے دورمیں گزشتہ نسل کانئی نسل سے کوئی رابطہ ہی نہیں رہاہے۔
دوردیس رہنے والی اس پاکستانی لڑکی میں ایک چیزایسی ہے جو میرے نزدیک اسے ہم جیسے بہت سوں سے ممتازکرتے ہے اوروہ ہے مسئلہ پرکڑھنے اورروتے رہنے کے بجائے تبدیلی کی امید،تڑپ،جذبہ،اپنی شناخت پراصراراوران سب کے لئے کام کرنے کا حوصلہ ۔جاتے جاتے وہ اوپربیان کئے گئے شکووں کا حل بھی تجویزکرگئی کہ اگر ہم خودسے محبت کرناسیکھ جائیں توذہنی پسماندگی دورہوجائے گی اورجس دن ایساہو گیااس دن پاکستان کوبہتری،بلندی،ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا،کوئی بھی نہیں۔

0 comments:

Post a Comment