رینٹل پاورمنصوبوں پر تحقیقاتی کمیشن قائم ~ The News Time

Wednesday 26 October 2011

رینٹل پاورمنصوبوں پر تحقیقاتی کمیشن قائم


اسلام آباد: سپريم کورٹ آف پاکستان  نے دو رينٹل پاور منصوبوں کے آغاز ميں مبينہ غفلت کی تحقيقات کے لئے کميشن قائم کرديا گیا ہے جب کہ کیس کی سماعت کے دوراں وفاقی وزير ہائوسنگ فيصل صالح حيات حکومت کيخلاف عدالت ميں پيش ہوگئے۔
 نمائندہ دی نیوز ٹرائب کے مطابق  چيف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی ميں دو رکنی بنچ نے رينٹل پاور پاليسی کے خلاف دائر متفرق درخواستوں کی سماعت کیں۔
 مسلم ليگ نون کے ايم اين اے خواجہ آصف نے اپنی درخواست ميں مؤقف اختيار کيا کہ 975 ميگا واٹ کے نندی پور اور چيچو کی ملياں پاور منصوبوں کيلئے کمپنيوں کو 6 ارب روپے کی پيشگی ادائيگی بھی کی جاچکی ہے ليکن جان بوجھ کر دو سال سے منصوبے شروع نہيں کئے جا رہے۔
کیس کی سماعت کےد وراں  چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ افسران کی ذاتی لڑائيوں کے باعث فائلوں کو ايک ٹيبل سے دوسری ٹيبل پر پہنچنے ميں کئی  ماہ لگ جاتے ہيں۔
 عدالت نے کہا کہ دونوں منصوبے شروع کرنے ميں دانستہ غفلت برتی گئی۔ عدالت نے غفلت کے ذمے داروں کے تعين کيلئے سپريم کورٹ کے سابق جسٹس رحمت حسين جعفرئ کی سربراہی ميں کميشن قائم کرتے ہوئے چار ہفتے ميں رپورٹ طلب کرلی۔
 سپریم کورٹ کے مطابق  کميشن کے اخراجات واپڈا،،وزارت پانی و بجلی اور وزارت خزانہ مشترکہ طور پر اٹھائيں گے۔
 رينٹل پاور پاليسی کے خلاف وفاقی وزير ہاؤسنگ فيصل صالح حيات بھی پيش ہوئے اور دلائل دينے چاہے تو رينٹل کمپنی کے وکيل شاہد حامد نے اعتراض کيا۔
 شاہد حامد نے موقف اختيار کيا کہ فيصل صالح حيات خود وفاقی وزير ہيں اور وہ کس طرح اپنی حکومت کيخلاف دلائل دے سکتے ہيں۔
 انہوں نے مزید کہاکہ  انھيں اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہوکر عدالت ميں آنا چاہئے۔
فيصل صالح حيات نے وکیل کےموقف کے جواب  میں کہا کہ وہ ذاتی حيثيت اور تمام نتائج مدنظر رکھ کر ہی عدالت ميں پيش ہوئے ہيں۔
اخلاقيات سکھانے والے خود بھی شيشے کے گھر ميں بيٹھے ہيں۔ رينٹل منصوبوں کيلئے قومی خزانے سے اربوں روپے ادا کئے گئے اور اب ان وکيلوں کو فيس بھی وہيں سے مل رہی ہے۔
چيف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ فيصل صالح حيات سوچ سمجھ کر ہی آئےہيں۔
اگر کابينہ ان سے پوچھ گچھ کرے گی تو يہ ان کي ذمے داری ہے۔ عدالت کو نہ گھسيٹا جائے۔
فيصل صالح حيات جمعرات کو دلائل کا آغاز کريں گے۔

0 comments:

Post a Comment