’پانچ مقامات کی نشاندہی، کھدائی کا کام جاری‘ ~ The News Time

Tuesday 10 April 2012

’پانچ مقامات کی نشاندہی، کھدائی کا کام جاری‘

ہمالیہ کے متنازع علاقے سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودے تلے دبے ایک سو انتالیس افراد کی تلاش میں پاکستان کی مدد کے لیے جرمن اور سوئس ٹیمیں منگل کو پاکستان پہنچ گئی ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق امدادی آپریشن میں مدد کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ سے تین ماہرین پر مشتمل ٹیم جبکہ جرمنی سے آفات سے نمٹنے کے ماہرین پر مشتمل چھ رکنی ٹیم ضروری سازوسامان سمیت پیر اور منگل کی درمیانی شب پاکستان پہنچیں۔
دوسری جانب جائے حادثہ کے قریب موسم شدید خراب ہے اور اطلاعات کے مطابق وہاں پر برف باری بھی شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امدادی کام جاری ہے ۔ امدادی کاموں میں ساڑھے چار سو فوجی اہلکار اور انسٹھ عام شہری حصہ لے رہے ہیں۔
بیان کے مطابق برفانی تودے تلے دبے افراد کی تلاش کے لیے پانچ جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور امدادی ٹیمیں کھدائی کا کام کر رہی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دو جگہوں پر کھدائی کا کام مشینری کے ذریعے کیا جا رہا ہے جبکہ تین جگہوں پر فوجی اہلکار اور عام شہری کھدائی کر رہے ہیں۔
بیان کے مطابق جرمن اور سوئّزرلینڈ سے آئی ٹیمیں گیاری سیکٹر کا دورہ کریں گی۔ تاہم موسم خراب ہونے کے باعث یہ ٹیمیں گیاری سیکٹر نہیں جا سکیں۔
واضح رہے کہ پچھلے دو دنوں سے علاقے میں خراب موسم کی وجہ سے کوئی بھی پرواز سکردو میں نہیں اُتر رہی ہے۔
امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے امریکہ کی آٹھ رکنی ٹیم جو اتوار کو پاکستان پہنچی تھی، خراب موسم کی وجہ سے جائے حادثہ پر نہیں پہنچ سکی۔
پیر کو پاکستانی فوج نے متاثرہ علاقے کی سیٹلائٹ سے لی گئی کچھ تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خراب موسم اور مسلسل برفباری کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
پیر کو فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ چالیس فٹ طویل، تیس فٹ چوڑا اور دس فٹ گہرے حصے کی تلاشی کا عمل مکمل کر لیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق امدادی آپریشن میں پانچ ہیلی کاپٹرز بھی شریک ہیں جبکہ اسلام آباد سے ایک سی ون تھرٹی طیارے کی مدد سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے اور سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن کے ماہرین کو بھی متاثرہ علاقے میں پہنچا دیا گیا ہے۔

0 comments:

Post a Comment